0

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اِتنی مٌلاقاتوں کے بعد

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اِتنی مٌلاقاتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کِتنی مَداراتوں کے بعد

کب نظر میں آۓ گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھٌلیں گے کِتنی برساتوں کے بعد

دِل تو چاہا پر شِکستِ دِل نے مٌہلت ہی نہ دی

کٌچھ گِلے شکوے بھی کر لیتے مٌناجاتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے

تھیں بہت بے مہر صٌبحیں مہرباں راتوں کے بعد

اٌن سے جو کہ کہنے گۓ تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے

اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

Share and Enjoy !

Shares
کیٹاگری میں : نظم

اپنا تبصرہ بھیجیں