0

پیکار آرڈیننس پر سیاسی جماعتوں نہیں سنیں گے وہ پارلیمنٹ جائیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد (مانند نیوز ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے پیکا آرڈیننس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی درخواست میں پیکاآرڈیننس کے تحت گرفتاریوں سے روکنے کے احکامات میں توسیع کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کی طرف سے ہدایات لینے اور دلائل کیلئے مہلت کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی۔گذشتہ روز سماعت کے دوران درخواست گزار رضوان قاضی پی ایف یو جے کے ایڈووکیٹ عادل عزیز قاضی کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے،جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ خان نیازی، اہڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود، ڈپٹی اٹارنی جنرل سہد طیب شاہ اور دیگر بھی عدالت پیش ہوئے،اس موقع پرأر أئی یو جے کے صدر شکیل احمد  ۔آر آئی یو جے کے جنرل سیکرٹری محمد صدیق انظر ۔پی ایف یو جے کے فنانس سیکرٹری جمیل مرزا، نائب صدر فرحت فاطمہ، طارق عثمانی اور دیگر بھی موجودتھے، عدالت نےاٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہاکہ پہلی بات یہ ہے کہ عدالت کو معلوم ہے کہ دنیا ہتک عزت کے قانون کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے،عدالت میں جو کیس آیا وہ اس عدالت کے لیے شاکنگ تھا،حکمران جماعت کی ایک رکن اسمبلی نے پڑوسی سے ماحولیاتی ایشو پر شکائت کی، ایف آئی اے نے ہراساں کیا،کسی کو ڈر نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف اس قانون کو استعمال کر رہی ہے،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں،یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے،ابھی یہ پروسیڈنگز چل رہی تھیں کہ یہ معاملہ اب عدالت کے سامنے آ گیا، عدالت کے لیے یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈی نینس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا،یہ عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کاالعدم قرار کیوں نا دے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں عدالتیں ایسا کر چکی ہیں، اگر ایگزیکٹو کو اپنی پرائیویٹ ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں،ہر پبلک آفس ہولڈر کی طاقت پبلک میں اس کی ساکھ ہوتی ہے،ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھا اس نے ایسا کیا، پولیٹیکل پارٹیز اور پولیٹیکل ورکرز اس بات کے ذمہ دار ہیں جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے،جب پولیٹیکل پارٹیز اپنی سوشل میڈیا ٹیمز بنائیں گی تو پھر وہ اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟،اداروں کا بنیادی حق نہیں ہوتا ہے وہ اس میں کیسے آ سکتے ہیں؟،سول قوانین کو زیادہ بہتر بنائیں، عدالت بھی آپ کی مدد کرے گی،ہتک عزت کا مقدمہ بہتر کر لیں، اس کا فیصلہ نوے دن میں ہو،عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کاالعدم قرار دیا جائے؟، اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے، میرے خیال سے یہ غیر آئینی نہیں،قانون کا غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں،میں اس کے دفاع کے لیے تیار ہوں مگر یہ بات بھی کہتا ہوں کہ سیف گارڈ ہونے چاہئیں،میرے ذہن میں ایک پلان ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے،بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ہتک عزت کے قوانین کو ڈی کریمنلائز نہیں کیا گیا،اگر کوئی کسی پردہ نشین خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونہ کرتی ہیں یا چھت پر گوشت پڑا ہے،کیا یہ آزادی اظہار رائے ہے؟،جنہوں نے یہ قانون بنایا تھا انہوں نے بھی اس کو چیلنج کیا گیا ہے،لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اسے چیلنج کیا گیا ہے،بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہاکہ ن لیگ کی جانب سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اپوزیشن کی تو سینیٹ میں اکثریت ہے ، آپ کے پاس اختیار ہے آپ اس کو مسترد کر سکتے ہیں،آپ پارلیمنٹ جا کر اپنا کردار ادا کریں، عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے، سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پر کارروائی نہیں کریں گے،ا سٹیک ہولڈر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ہے اس کو سنیں گے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ کسی کے بیڈ روم کی وڈیو بنا کر وائرل کرنا یا جعلی وڈیو اپلوڈ کرنا ٹھیک ہے؟، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ پیکا ایکٹ میں ترمیم سے قبل کا سیکشن 20 بھی دیکھ لیں،عدالت کے سامنے جتنے کیسز آئے ہیں اس میں ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے اختیار کا غلط استعمال کیا،آپ ایف آئی اے کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ شکایت پر کسی کو پکڑ لے اور ٹرائل تک بندہ اندر رہے،عدالت کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ پیکا آرڈیننس ڈریکونین قانون ہے، ایف آئی اے کو لوگوں کی شہرت بچ…

Share and Enjoy !

Shares

اپنا تبصرہ بھیجیں