0

فل کورٹ سماعت مسترد، کل سپریم کورٹ کاروئی کے بائی کاٹ کا امکان

اسلام آباد (مانند نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کے کیس میں حکومتی اتحادیوں کی فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کر دی جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ پیچیدہ کیسز میں بنائے جاتے ہیں، یہ کیس پیچیدہ نہیں، یہی بنچ آج صبح سا ڑھے گیارہ بجے مقدمے کی سماعت دوبارہ کرے گا،۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے کیس کی دوبارہ سماعت کی۔ دن بھر دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر کے رولنگ کیخلاف فل کورٹ بنانے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیاتھا۔ دو وقفوں کے بعد عدالت نے رات سوا نو بجے مختصر حکم سنایا۔وقفے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومتی اتحادیوں اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ تین رکنی بنچ ہی سماعت کرے گا۔سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کیس کو میرٹ پر سنیں گے، ہم نے معاملہ کا جائزہ لیا ہے، چودھری شجاعت اور پیپلز پارٹی کے فریق بننے کی درخواستیں منظور کرتے ہیں۔ آگے چل کر دیکھیں گے فل کورٹ بنچ کا کیا کرنا ہے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے یہ ہی احکامات ہیں، معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔ میں نے استدعا کی فل کورٹ بنچ بنانے سے عدالتی تکریم میں اضافہ ہو گا۔ اگر نظر ثانی منظور ہوئی تو بات پہلے والی صورتحال پر چلی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کا طویل سفر ہے، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے وزیر اعظم کو گھر بھیجا، آپ نے پہلے کبھی بنچ پر اعتراض نہیں کیا۔ اس پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم معذرت کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ معذرت نہیں کرتے آپ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ اس عدالت نے ضمیر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے، اگر یہ معاملہ تجاوز کا ہوا تو ممکن ہے فل کورٹ میں جائے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ووٹ کے نہ گننے کی تشریح درست نہیں کے نتیجے پر رن اف الیکشن ہی ختم ہوجائے گا، 12 کروڑ کے وزیراعلیٰ کا مسئلہ ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ قانونی سوال پر آپ تیاری کرلیں۔ اس پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل نے کہا کہ اگر آپ نے سننا ہے تو سب کو موقع دیں، میں نے تحریری جواب تیار کیا ہے، اتنا وقت تو دیں مقدمہ کہ تیاری کر سکیں۔اس پرچیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ فل کورٹ پر ہم نے سوچا ہے، فل کورٹ پیچیدہ کیسز میں بنائے جاتے ہیں، یہ پیچیدہ کیس نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے پر ہمارا فیصلہ آ چکا ہے، ہم نے 2015ء کے فیصلے کا مطالعہ کیا ہے، اگر آپ تیار نہیں تو منصور اعوان سے سوال کر لیتے ہیں۔ ملک میں گورننس بہت بڑا ایشو ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی ہم مزید فریقین کو سننا چاہتے ہیں، آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ کے کہنے پر ابھی فل کورٹ بنا دیں۔ آپ شاید چاہتے ہیں آپ کے کہنے پر فل کورٹ بنا دیں تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں، میرٹ پر دلائل سن کر فیصلہ کریں گے فل کورٹ بنانی ہے یا نہیں۔اسی دوران عرفان قادر نے کہا کہ مجھے اپنے موکل سے ہدایات لینے کا وقت دیا جائے۔ میرٹ پر دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہوگا، ہمارے تمام دلائل فل کورٹ سے متعلق ہیں۔کیس میں دو مرتبہ وقفہ کیا گیا۔وقفے کے بعدجسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ اس سوال کا جواب دے چکے ہیں پارٹی سربراہ ہدایات دے سکتا ہے، کیس میں لمبا کرنے کی کوئی بات نہیں ہے، عدم اعتماد والے کیس میں عدالت نے سوموٹو لیا تھا، موجودہ کیس میں کوئی سوموٹو نہیں لیا، آپ کے ہر لفظ کو سنا جائے گا، ہم نے وکیل منصور عثمان کو تفصیلی سنا ہے، لمبے سفر کے بعد 63 اے بنی ہے، وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے فیصلے پر اپ نے مٹھائیاں بانٹی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اج جس شخص نے 186 کے مقابلے میں 179 ووٹ لئے وزیراعلی ہے، ایسے وزیراعلی کو جاری رکھنے کیلئے ٹھوس قانون وجوہات چاہئے، ہم یکم جولائی کو فیصلہ دیتے ہوئے بھی موجود وزیراعلی کو کام سے نہیں روکا تھا، الیکشن کے نتائج کا احترام ہونا چاہیے، اپ کہہ رہے ہیں پارٹی ہیڈ کا کنٹرول ہوتا ہے، آپ خود سے سوال سے پوچھیں آئین کے مطابق کس نے ہدایات دینی ہیں۔عرفان قادر نے کہا کہ میرے دلائل فل کورٹ کی تشکیل پر ہے، آپکی اجازت سے بات کرونگا، اگر فل کورٹ پر عدالت نہیں سننا چاہتی تو میں چلا جاتا ہوں، جب وہی جج صاحبان بنچ میں آتے تو تاثر ملتا ہے، ججز کی ساکھ پر میرا کوئی سوال نہیں ہے، ابھی تک کوشش کررہے ہیں قانون سوالات طے کرلئے جائیں، علی ظفر نے بھی تسلیم کیا کوئی آئینی سوال شامل ہی نہیں، ساڑھے گیارہ بجے اپ نے حکم دیا میرے پاس تو پیپر بک بھی نہیں تھی، میں نے پہلی سماعت پر بھی کوشش کی عدالت کی معاونت نہ دوں، اپ نے سابقہ سماعت کے حکم میں لکھ دیا میری تیاری نہیں، ڈپٹی سپیکر کا جواب بھی ساتھ لایا ہوں آخری گزارش ہے بہتر معاونت کیلئے ٹائم دیا جائے۔ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہی وزیراعلی کا دوبارہ الیکشن ہوا، منحرف ارکان کے ووٹ اگر مسترد کرنے کا فیصلہ بدل گیا تو دوبارہ پولنگ کی ضرورت نہیں ہوگی، کیس کی بنیاد ہی عدالتی فیصلہ ہے جس کی نظرثانی پر پہلے فیصلہ ضروری ہے، یہ سپریم کورٹ جتنی اپکو عزیز ہے اتنی ہی مجھے عزیز ہے، ہم آئے ہیں چلے جائیں گے ادارے موجود رہیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میرٹس پر ہمارے سامنے سوال تھا پارٹی ہیڈ ہدایات دے سکتے ہے یا نہیں، منصور عثمان کا موقف ہے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تناظر میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے، یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں، سپریم کورٹ کا پہلا فیصلہ آچکا ہے، دیکھنا ہے کیا سپریم کورٹ کے پہلے فیصلوں سے کوئی تضاد ہے، دیگر وکلا نے کیس تیار کیا ہوا انکو سن لیں گے، ہمارے ملک میں حکومت بڑا ایشو ہے، ائین کے شرائط کو کئی دفعہ نظر انداز کیا جاتا ہے، وفاقی حکومت کے کیس میں ہم نے از خود نوٹس لیا، دن اور شام کو سن کر چار روز میں فیصلہ کیا، اس کیس پر تو از خود نوٹس بھی نہیں لیا۔ سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کیس کو جمعرات کی صبح تک ملتوی کر دے، جمعرات کی صبح سے شام تک کیس کو مکمل کر لیا جائے، کیس کو ملتوی کیا جائے تاکہ ماحول کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ماحول گرم ہے، میرے خیال سے تو آج بھی ماحول گرم نہیں، جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا تھا انہیں وقفے کے دوران پڑھا ہے۔ اسی دوران چیفجسٹس نے کہا کہ آپ وزیرقانون، پارلیمان کے رکن اور بار کے صدر بھی رہے ہیں، عہدہ سنبھالا تو 54 ہزار کیسز زیر التوا تھے آج 51 ہزار تک آ گئے، کوشش ہے کہ چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے کیسز 50 ہزار سے کم ہوجائیں۔اس پر پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا کہ درخواست ہے کل صبح فریش مائنڈ کے ساتھ یہ کیس سن لیں، کل پر امن ماحول میں سماعت پو پائے گی،اسی دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم پرسکون بیٹھے ہیں، آپ دلائل دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ بن جائے تو دیگر مقدمات کو وقت نہیں مل سکتا، کیسز کے بوجھ میں کمی ڈسپلن کی وجہ سے آئی ہے، آج سوشل میڈیا حقائق کے بجائے تاثر کو دیکھتا ہے مگر ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے، اس کیس میں پارلیمانی پارٹی کی کوئی ہدایات نہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اختیار پر پارٹی سربراہ نے تجاویز کیا، یہ دیکھنا ہے پارلیمانی پارٹی کو پارٹی سربراہ چلاتا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمان کے مسئلے عدالت میں نہیں آنے چاہئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ غیر قانونی اقدام کرے گا تو عدالت مداخلت کرے گی، موجودہ کیس میں سوال بس یہ ہے پارلیمانی پارٹی کی طرف سے کوئی ہدایات نہیں تھیں، پارٹی سربراہ کی تھی، یہ کوئی بہت مشکل کیس نہیں ہے، ہمیں صرف مزید ٹھوس آئینی دلیل چاہیے پارٹی ہیڈ کی ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے، آپ نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم کر کے پارلیمانی پارٹی کو اختیار دیا، بورس جانسن کو پارلیمانی پارٹی نے ووٹ دیا، عدم اعتماد تک بات ہی نہیں گئی، ہم نے جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے، اگر پارلیمنٹ غیر قانونی اقدام کرے گا تو عدالت مداخلت کرے گی۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ عدالت کو فل کورٹ بنانے کیلئے آئینی نکات درکار ہیں، آپ کے ساتھی نے کہا تھا پارٹی سربراہ آمر بن کر لوگوں کا کیریئر تباہ کر دیتا ہے، اٹھارہویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنا کر احسن قدم اٹھایا گیا، پارلیمان اور اداروں کو مضبوط کرنا ہے، اس بات کا کوئی ڈر نہیں سچ بولنے پر کوئی کیا کہے گا، اسمبلی کارروائی کو استثنی صرف کارروائی کے طریقہ کار پر ہے۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے وکیل صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک منشور ہوتا ہے، تھرڈ ورلڈ ممالک میں پارٹی سربراہ کی اپنی شخصیت ہوتی ہے۔اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی میں تمام ارکان کی اہمیت ہے، پارلیمانی پارٹی میں پارٹی سربراہ کی آمریت نہیں ہونی چاہیے، پارلیمانی پارٹی کی مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں۔ چودھری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ ‏عدالت عظمی کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں پارٹی سربراہ کو ہدایت کا اختیار ہے، ‏ایم پی ایز اور ڈپٹی سپیکر کو بھیجے خطوط کا ریکارڈ جمع کرائوں گا، ‏کچھ ایسے حقیقی سوالات ہیں جو عدالت میں اٹھائے گئے ان کا جواب دینا ضروری ہے، اس میں پارلیمنٹری پارٹی کی ڈائریکشن کا معاملہ ہے کون کیسے یہ ڈائریکشن دے سکتا ہے، ووٹ کا فیصلہ پارٹی سربراہ اور پارٹی کا ہوتا ہے، کئی جماعتیں کہتی ہیں کاغذوں میں نام کسی کا بھی ہو ہمارا قائد فلاں لیڈر ہے، اصل فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہی ہوتا ہے، قائد کوئی بھی ہو، کسی جماعت کا ایک سینیٹر ہو تو وہ کس پارلیمانی پارٹی سے ہدایت لے گا؟ فل کورٹ کی بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بار بار فل کورٹ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ آپ آٹھ ججز کے فیصلے کا حوالہ دے رہے تو 9 ججز بھی سماعت کر سکتے، آپ 21 ویں ترمیم کیس کا حوالہ دے رہے ہیں، 21 ویں ترمیم میں فیصلہ کس تناسب سے آیا تھا یہ دیکھیں، بنچ کے رکن جتنے بھی ہوں فیصلے کا تناسب بدلتا رہتا ہے۔اسی دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اپریل سے ایک بحران چلا آ رہا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں یہ تنازعہ چلتا رہے، ہم ریاست کے اتنے معاملات کو لمبا کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ دو ماہ پہلے عدالت نے ایک فیصلہ دیا جو سب پر ماننا لازم ہے، ہو سکتا ہے ہمارا فیصلہ غلط ہو لیکن ابھی تک فیصلہ پر نظر ثانی نہیں ہوئی، نظر ثانی درخواستیں زیر التواء ہیں، توقع نہیں تھی اسمبلی بحال ہونے کے بعد نئی اپوزیشن واک آؤٹ کر دے گی، عدالت نے نیک نیتی سے فیصلہ کیا تھا، اپریل 2022ء سے آج بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے، آپ شاید چاہتے ہیں یہ بحران مزید طول ہو، فل کورٹ ستمبر میں ہی بن سکے گی، کیا تب تک سب کام روک دیں؟ ریاست کے اہم ترین معاملات کو اس لیے لٹکا نہیں سکتے آپ کی خواہش ہے، آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے، ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے، حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہیے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ دو ماہ پہلے عدالت نے ایک فیصلہ دیا جو سب پر ماننا لازم ہے، ہو سکتا ہے ہمارا فیصلہ غلط ہو لیکن ابھی تک فیصلہ پر نظر ثانی نہیں ہوئی، نظرثانی درخواستیں زیر التوا ہیں، توقع نہیں تھی اسمبلی بحال ہونے کے بعد نئی اپوزیشن واک آؤٹ کر دے گی، عدالت نے نیک نیتی سے فیصلہ کیا تھا۔ اپریل 2022ء سے آج بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ شاید چاہتے ہیں بحران مزید طول ہو، فل کورٹ ستمبر میں ہی بن سکے گی، ہمارے علاوہ صرف دو ججز ہی یہاں دستیاب ہیں، کوشش کر رہے ہیں یہاں عدالت انے والوں کو سہولیات دیں۔ کیا تب تک سب کام روک دیں؟ ریاست کے اہم ترین معاملات کو اس لیے لٹکا نہیں سکتے، آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے، حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہیے۔ حمزہ شہباز کا الیکشن غلط قرار دیا، ہم نے حمزہ شہباز کو یکم جولائی کو وزارت اعلی سے نہیں ہٹایا، وزیراعلی کے الیکشن سے پہلے بھی فریقین کو بلا کر متفق کیا تھا، حمزہ کو ضمنی الیکشن تک بطور وزیراعلی برقرار رکھا تھا، انہوں نے پرامن اور بہترین ضمنی الیکشن میں کردار ادا کیا، اب وزیراعلیٰ کے الیکشن کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے، عدالت کے فیصلے پر انتخابات ہوئے اور پر امن طریقے سے ہوئے، ہمیں یہ ڈھونڈ کر دے دیں کہ کہاں لکھا ہے کہ پارٹی ہیڈ غیر منتخب بھی ہو تو اس کی بات ماننا ہوتی ہے۔ اس سے قبل سماعت کے آغاز میں عدالت نے سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں بار کے کافی صدور یہاں موجود ہیں۔اس پر لطیف آفریدی نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظرثانی درخواستیں زیرالتوا ہیں، موجودہ سیاسی صورتحال بہت گھمبیر ہے، سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت ہے، ہمارے سابق صدور نے میٹنگ کی ہے۔ سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست بھی زیرالتوا ہے، دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیکر تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنا جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ذرا کیس کو سیٹ اپ تو کر لینے دیں۔اسی دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس کا براہ راست تعلق ہمارے فیصلے سے ہے، ہم چاہیں گے فریقین ہماری رہنمائی کریں۔ تاہم علی ظفر نے سابق صدور سپریم کورٹ بار کے مطالبے پراعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔

اس دوران چیف جسٹس کا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ ہوا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے پاس کرسی تو ہے ناں۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سر کرسی کی کوئی بات نہیں، کرسی کی پرواہ نہیں کرتا، ہم نے صبح درخواست جمع کروائی تھی اسے بھی سنا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو اسٹیک ہولڈرز ہیں ان سب کو سنا جائے گا۔
لطیف آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی زیر التوا ہیں، آئینی بحران سے گریز کیلیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بحران گہرے ہوتے جا رہے ہیں، پورا سسٹم داؤ پر لگا ہوا ہے، سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ارکان اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں صرف وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں، سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہے، کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایات ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟دوران سماعت وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں ہمارے فیصلے کے کس حصے کا حوالہ دیا، ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے جس پیراگراف پر انحصار کیا وہ کہاں ہے؟جسٖٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ڈائریکشن اور ڈیکلریشن پر واضح ہے، پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی کا کردار الگ الگ ہے۔حمزہ شہباز کے وکیل نے غیر متعلقہ جواب دیا تو ججز نے انہیں پہلے بنیادی سوال کا جواب دینے کی ہدایت کی۔جسٹس منیب اختر نے وکیل سے کہا کہ جو نقطہ آپ اٹھانا چاہ رہے ہیں وہ ہم سمجھ چکے ہیں، مناسب ہوگا اب کسی اور وکیل کو موقع دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی ہدایت اورڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا، یہئ نقطہ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ فیصلے کے کون سے حصے پر ڈپٹی اسپیکر نےانحصار کیا اس کابتائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کے پیراگراف نمبر تین پر انحصار کیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت میں سینیئر پارلیمینٹرینز نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پارٹی سربراہ آمر ہوسکتا ہے، اس کے کردار کو کم کرنے کے لیے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کو کردار بھی دیا گیا۔ پاکستان میں موروثی پارٹیاں ہیں، ایک سربراہ باہر بیٹھ کر کیسے ہدایات دے سکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی نمائندوں کو آئین میں اختیارات دیے گئے ہیں، اسمبلی میں کس کو ووٹ دینا ہے اس کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، صدارتی ریفرنس میں ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی ہیڈ کی ڈکٹیٹر شپ سے بچایا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی ہیڈ کی ڈکٹیٹر شپ سے متعلق کئی ارکان نے شکایات کیں، پارٹی ہیڈ کو بھی پارلیمانی پارٹی کی رائے سننی ہوگی۔وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ 4 سیاسی جماعتوں کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، جے یو آئی (ف) پارٹی سربراہ کے نام پر ہے لیکن مولانا فضل الرحمٰن پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، عوام میں جواب دہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے پارلیمانی پارٹی نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے، منحرف رکن کے خلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، ووٹ کس کو ڈالنا ہے ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور ریفرنس سربراہ بھیجے گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہو، عوام جسے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔ برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے ہوتے ہیں، برطانیہ میں پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلہ درست مانتے ہوئے ہی رولنگ میں اس کا حوالہ دیا تھا۔جس پر ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ ووٹ مسترد کرنے کی حد تک فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یعنی ووٹ مسترد ہونے کی حد تک عدالتی فیصلہ تسلیم شدہ ہے، سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی تشریح کا ہے کہ درست کی یا نہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے ہمارے فیصلہ پر انحصار کر کے فیصلے سے آگے بڑھ کر رولنگ دی۔ سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلہ کہ درست تشریح کی، سوال یہ بھی کیا ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کی غلط تشریح تو نہیں کی۔ساعت کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کارروائی میں ایک بات پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ منصور اعوان نوجوان اور انکے کندھوں پر بہت بوجھ ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منصور اعوان بہت بہترین دلائل دے رہے ہیں، عدالت نے منصور اعوان کو وزیر قانون سے ہدایات لینے سے روک دیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منصور اعوان وزیراعلی پنجاب کے وکیل ہیں، وہ وزیر قانون سے کیسے ہدایات لے سکتے۔ سوالات سے پریشان نہ ہوں، دلائل جاری رکھیں۔منصور اعوان نے کہا کہ عمران خان کی ہدایات کو الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا، الیکشن کمیشن کا اس معاملہ پر فیصلہ کیا، جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیسن کے معاملہ سے تعلق کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی دیا ہے، آپ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی پڑھ لیں۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تمام پارٹی اراکین کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس شروع پونے سے پہلے موصول ہو گیا تھا۔منصور اعوان نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے پہلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ہدایات عمران خان نے دی تھیں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کی ہدایات پر ارکان کو منحرف قرار دیا، منصور اعوان نے عمران خان کی ایم پی ایز کو ہدایت بھی عدالت میں پیش کر دی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب انتخاب کے پہلے اور اب کے کیس میں فرق ہے، الیکشن کمیشن میں ارکان کا موقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملی، موجودہ کیس میں ارکان کہتے ہیں پارلیمانی پارٹی نے پرویز الہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی ہدایت کے نقطے پر کسی فریق نے اعتراض نہیں کیا، منحرف ارکان اور اس کیس کے حقائق مختلف ہے، منحرف ارکان کا موقف تجا ہمیں شوکاز اور ہدایات نہیں ملی،یہاں پر ایشو مختلف ہے۔جسٹس اعجاز الااحسن کا کہنا تھا کہ تمام 10 ممبران نے ووٹ کاسٹ کیا،کسی رکن نے دوسری طرف ووٹ نہیں دیا، تمام ارکان نے ایک طرف ووٹ ڈالا،دس ارکان میں میں کسی نے نہیں کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نہیں ہوا۔ سماعت منگل کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

Share and Enjoy !

Shares

اپنا تبصرہ بھیجیں