0

بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے تباہی،جاں بحق افراد کی تعداد 132تک پہنچ گئی

کوئٹہ (مانند نیوز ڈیسک) کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بارش اور سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد 132 تک پہنچ گئی جبکہ مکانات بھی تباہ ہوگئے،ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچنے سے پاک ایران مال بردار ٹرین سروس معطل کر دی گئی جبکہ قومی شاہراہ کو نقصان پہنچنے سے بلوچستان سے کراچی جانے والے پھل اور سبزیوں کی ترسیل بھی معطل ہوگئی۔لسبیلہ، جھل مگسی اور دیگر متاثرہ علاقوں میں فوج اور دیگر اداروں کا ریسکیو اور ریلیف آپریشن جاری ہے، سیلاب متاثرہ علاقوں میں مزید بارش کا امکان ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان کے اکثر علاقوں میں وقفے وقفے سے موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری رہا،صوبے بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے پیش آنے والے حادثات میں اموات کی تعداد 132 ہو گئی، ندی نالوں میں طغیانی اور سیلابی ریلوں سے بیشتر رابطہ سڑکیں بہہ گئیں، ساڑھے 13 ہزار مکانات متاثر ہوئے ہیں جبکہ بجلی کے 140 کھمبے گر چکے ہیں۔کوئٹہ میں انگوروں کے باغات تباہ ہو گئے، ضلع واشک میں سیلابی ریلہ پیاز سے بھری بوریاں بہا کر لے گیا۔  مون سون کا چوتھا سپل بلوچستان کے جنوب مشرق اور وسطی علاقوں میں تباہ کاریوں کا باعث بن رہا ہے۔ شمال میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قلعہ سیف اللہ کے دور افتادہ علاقے اور بلوچستان کے بلند ترین مقام کان مہتر زئی میں نظامِ زندگی مفلوج ہو گیا۔پہاڑوں پر زندگی گزارنے والے حالات سے مجبور ہو کر شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔بلوچستان کو خیبر پختو نجوا اور پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ N50 پر واقع صوبے کے بلند ترین صحت افزا مقام کان مہتر زئی پر ریکارڈ توڑ طوفانی بارش ہوئی ہے۔پاکستان میں ذائقے اور مٹھاس میں شہرت رکھنے والے سیب، خوبانی اور چیری کاشت کرنا کان مہتر زئی کے مکینوں کا واحد ذریعہ معاش ہے مگر اب کاروبار اور سر کا سایہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہا۔پر فضا پہاڑوں میں پرسکون زندگی بھی سیلاب کے خطرات نے چھین لی، محفوظ جگہ کی تلاش میں متاثرین نے میدانی علاقوں کی جانب نقل مکانی شروع کر دی۔سیلابی ریلہ کئی دیہات میں سب کچھ بہا کر لے گیا، کئی فٹ اونچے سیلابی ریلے آبادی میں داخل ہوئے تو ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی، لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بال بچوں کے ساتھ پہاڑوں پر پناہ لینے لگے۔بہت سارے لوگ ریلوں میں بہہ گئے، ہرے بھرے میوہ جات کے باغات، فصلیں، پختہ سڑکیں اور قدرتی چشموں کے بجائے اب چاروں طرف صرف سیلابی ریلوں کے آثار دکھائی دے رہے۔متاثرین نے کہا کہ برسات میں طوفانی بارشیں، سردیوں میں ہر دوسرے دن برف باری اور سخت ترین سردیاں تو دیکھتے رہے مگر برسات میں قیامت خیز سیلابی ریلے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔سیلابی ریلوں نے زغلونہ، یعقوب کاریز، شنہ ویالہ، عمر زئی، سرانہ سمیت کئی دیہات میں تباہی مچائی، جس سے 200 سے زائد گھر تباہ ہو گئے، مال مویشی، ٹیوب ویل اور سولر مشینری سیلاب میں بہہ گئی۔سندھ کے شہر دادو کے کیرتھر کے پہاڑی سلسلوں میں 2 دن کے وقفے کے بعد بارشوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔ریسکیو ذرائع کے مطابق کاچھو کی 6 یونین کونسلوں کا آج بارہویں روز بھی زمینی رابطہ منقطع ہے، متاثرہ یونین کونسلوں کے 200 سے زائد دیہاتوں کا بھی زمینی رابطہ منقطع ہے۔ متاثرین پیدل یا کندھوں پر موٹر سائیکلیں اٹھا کر لے جانے پر مجبور ہیں، متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا کی قلت کا سامنا ہے۔ریسکیوحکام نے کہا کہ کاچھو میں پیٹ کے امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں، سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں 100 سے زائد بچے گیسٹرو اور ڈائریا میں مبتلا ہو گئے۔ڈاکٹر احمد نصیر سمیجو کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کی 6 ٹیمیں دادو کے متاثرہ علاقوں میں طبی امداد فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔دوسری جانب کنٹرول روم کے مطابق دریائے سندھ میں گڈو بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ہے، گڈو بیراج کے مقام پر پانی کی آمد 3 لاکھ 11 ہزار 615 کیوسک ریکارڈ کی گئی۔کنٹرول روم نے بتایا ہے کہ گڈو بیراج پر پانی کا اخراج 2 لاکھ 86 ہزار 85 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ادھر گڈو بیراج کے بچاو بندوں پر پانی کا دباؤ بڑھنے لگا، جس کے بعد حکام کی جانب سے کچے کے مکینوں کو ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔

Share and Enjoy !

Shares

اپنا تبصرہ بھیجیں