0

سیلاب متاثرین کیلئے عالمی برادری کی مدد کی فوری ضرورت ہے،بلاول بھٹو

اسلام آباد (مانند نیوز ڈیسک) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان گلوبل وارمنگ کی وجہ سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے، پاکستان کو عالمی برادری کی مدد کی فوری ضرورت ہے۔دفتر خارجہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی فلیش اپیل پر بھرپور ردِ عمل دے کر ضرورت مند پاکستانیوں کی مدد کریں کیوں کہ ‘ہمیں نہ صرف فوری ریلیف ریسکیو کوششیں کرنی ہیں بلکہ تباہ ہونے والے علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو بھی کرنی ہے’۔     سیلاب سے ہونے والی تباہی سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ رواں برس سندھ میں سب سے زیادہ 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا جس کے نتیجے میں شمالی علاقہ جات میں موجود گلیشیئرز پگھلے جہاں آرکٹکٹ کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آج جو ہم سیلاب دیکھ رہے ہیں یہ اسی موسمیاتی تبدیلی کی شدت کا مظہر ہے، بے مثال کلاڈ برسٹ، مسلسل اور شدید بارشوں نے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی جس سے نہ صرف شہروں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی، پہاڑی سیلاب آئے، دریاں میں طغیانی آئی۔انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں انسانی جانوں، روزگار اور مویشیوں کا نقصان ہوا جبکہ املاک اور انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا جس سے سب سے زیادہ پاکستان کے جنوبی، شمالی اور وسطی حصے متاثر ہوئے بالخصوص سندھ اور بلوچستان۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ یہ تباہی کی یہ سطح 2010 میں آنے والے شدید سیلاب سے بڑھ جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ قدرت ہمیں ایک نیا پیغام بھیج رہی ہے اور اپنی جغرافیائی لوکیشن اور دیگر پہلووں کی وجہ سے پاکستان اس صدی کے سب سے گہرے اثر گلوبل وارمنگ کا گراونڈ زیرو بن چکا ہے۔سیلاب کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں ہر طرف صرف پانی ہے، 72 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا جاچکا ہے، 3کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جو ایک چھوٹے ملک کی آبادی کے برابر ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ خواتین اور بچوں سمیت 11 سو سے زائد لوگ اپنی جانیں ہار چکے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہیں، روزگار شدید متاثر، مویشیوں کا نقصان اور فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں افراد اپنے گھروں سے دربدر ہو کر کیمپ اور کھلے آسمان تلے دن اور رات بسر کرنے پر مجبور ہیں، خوراک، صاف پانی، شیلٹر اور بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی کے فقدان کی وجہ سے روز بروز ان کی زندگی مشکل سے مشکل ترین ہوتی جارہی ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ اہم انفرا اسٹرکچر مثلا سڑکیں، ریلوے نیٹ ورک اور پل بری طرح متاثر یا تباہ ہوگئے ہیں، یہ متاثرین کو محفوظ جگہ منتقل کرنے، امدادی سامان پہنچانے کی ہماری کوششوں کو مشکل بنا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ جن علاقوں میں گزشتہ 2 ماہ سے طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے حالات پہلے ہی بگڑے ہوئے تھے وہاں مسلسل بارشوں کے باعث صورتحال مزید سنگین ہونے کا اندیشہ ہے۔’وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارے لیے یہ کسی قومی ایمرجنسی سے کم نہیں، خاص کر خواتین اور بچے اس تباہی سے سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں، یہ ان کی زندگیاں بدل دینے والا تجربہ ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے ذاتی طور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور لوگوں کا اپنے پیاروں کو کھو کر گھروں سے دربدر ہوجانے کا دکھ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ میں نے ان کی آنکھوں میں سب کچھ کھو دینے کا درد اور تکلیف دیکھی ہے جو اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار اور اگلے وقت کے کھانے کا انتظار کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ لوگ اپنی بقا اور زندگیوں کی دوبارہ تعمیر کی لیے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، انسانی مصائب میں مزید اضافہ سیلاب کے باعث پیدا ہونے والے معاشی اثرات کررہے ہیں جس نے ہمارے محدود وسائل کو مزید تنگ کردیا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ حکومت پاکستان اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے اور اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر امدادی کاموں کی قیادت کررہی ہے اور قومی کوششوں کے تحت ہم نے 17 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی نقد رقم براہ راست سیلاب متاثرین کو فراہم کرنے کے لیے مختص کیے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یہ رقم 15 لاکھ خاندانوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے فراہم کیے جائیں گے جس سے ہر خاندان کو فوری 25 ہزار روپے ملیں گے جبکہ 5 ارب روپے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو ریلیف اور امدادی کارروائیوں کے لیے جاری کی ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے مزید بتایا کہ حکومت سیلاب کے نتیجے میں مرنے والوں کے ورثا کو 10 لاکھ روپے، زخمیوں اور جزوی طور پر متاثر ہونے والے مکانات کے لیے ڈھائی لاکھ روپے جبکہ مکمل تباہ ہونے والے مکانات کے لیے 5 لاکھ روپے معاوضہ دے رہی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ مالی امداد کے ساتھ ساتھ خوراک کے پیکٹس، شیلٹرز کے لیے ٹینٹس اور صاف پانی اور حفظانِ صحت کی اشیا بھی صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے فراہم کی جارہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومتی کوششوں میں پاکستانی عوام، سول سوسائٹی اور فلاحی تنظیمیں آگے بڑھ چڑھ کر حصہ بٹا رہی ہے، جبکہ پی ایم ریلیف فنڈ 2022 بھی قائم کردیا گیا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ تباہی بہت بڑی ہے اور ہماری صلاحیتوں، وسائل سے کہیں زیادہ ہے جس سے لاکھوں افراد بقا کی بنیادی ضروریات اور طبی سہولیات سے محروم ہوگئے ہیں اور ان ضروریات اور انہیں تیزی کے ساتھ اس بڑے پیمانے پر پورا کرنے میں آنے والا فرق انتہائی اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے لیے عالمی برداری کا فوری تعاون درکار ہے، ہم ابتدائی مرحلے میں دنیا بھر میں اپنے دوست اور شراکت دار ممالک کی جانب سے فوری فراہم کردہ تعاون پر انتہائی شکر گزار ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک سے ریلیف کا سلسلہ جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اس ردِعمل اور کوششوں کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے یو این فلیش اپیل فار پاکستان فلڈ ریسپانس پلان 2022 کا اجرا کررہے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ اس اپیل میں جن شعبوں پر ترجیحی توجہ دی گئی ہے اس میں تعلیم، غذائی تحفظ، زراعت، طبی سہولیات، غذائیت، تحفظ، پناہ گاہ اور غیر خوراک اشیا، پانی، صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت شامل ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں لائیو اسٹاک کے شعبے میں بھی تعاون درکار ہے جبکہ ریلیف مشینری اور آلات، شیلٹرز، مچھر دانیوں، خیموں کی فوری ضرورت ہے، یہ اپیل بڑے پیمانے پر ضروریات کا ایک حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ میں عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ اس فلیش اپیل پر بھرپور ردِ عمل دے کر ضرورت مند پاکستانیوں کی مدد کریں، مجھے امید ہے کہ ہمارے شراکت دار اس آفت پر فوری ضرورت اور ہماری محدود معیشت کے پیشِ نظر انسانی امداد فراہم کرتے ہوئے ترقیاتی امداد میں کٹوتی نہیں کریں گے جس کا اس سے پہلے وعدہ کیا گیا تھا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں نہ صرف فوری ریلیف ریسکیو کوششیں کرنی ہیں بلکہ تباہ ہونے والے علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو بھی کرنی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں جس آفت کا سامنا ہے یہ براہِ راست اور نہ محدود کی جانی والی موسمیاتی تبدیلی کا مظہر ہے جبکہ ہم کرہ زمین پر ایک فیصد سے بھی کم گرین ہاس گیسز کا اخراج کرتے ہیں۔۔

Share and Enjoy !

Shares

اپنا تبصرہ بھیجیں