0

اپر چترال کے جونالی کوچ اور قاقلشٹ مین ہزاروں ایکڑ زمین کا منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ

اپر چترال(مانند نیوز)ضلع اپر چترال کے علاقہ جونالی کوچ کے  بیسیوں باشندوں نے اپنے حق کیلئے ایک پر امن احتجاج اور بعد ازاں پریس کانفرنس کیا۔علاقے کے عمائدین نے کہا کہ گلگلت بلتستان کے سابق گورنر  پیر کرم علی شاہ کے والد جمال علی شاہ نے ریاست چترال کے سابق حکمران مہتر چترال سے براستہ چترال ریاست دیر جانے کیلئے راہداری مانگی تھی جسے یہ راہداری مہتر چترال نے فراہم کیا۔انہوں نے الزام لگایا کہ اس راہداری کی نمبر کو سابق گورنر پیر کرم علی شاہ نے دو مرتبہ Tempering کرتے ہوئے اس کے ذریعے دھوکہ دہی کی کوشش کی اور اس کے ذریعے جعلی اسناد پیش کرتے ہوئے ہزاروں ایکڑ زمین پر قابض ہویے۔انہوں نے کہا کہ پیر کرم علی شاہ کے بیٹے نے جوڈیشل کونسل ڈپٹی کمشنر چترال کے محافظ حانہ میں ایک جعلی کاغذ رکھ کر اس کی نقل لیکر اس کے ذریعے  جونالی کوچ میں زمین اپنے نام کردی۔جب اس پر ڈپٹی کمشنر لوئیر چترال نے انکوائیری کروائی تو وہ سند جعلی ثابت ہوا اور اس میں محافظ حانہ کا ریکارڈ کیپر شیر احمد اور اسکے  سہولت کار محمد علی شاہ کے حلاف باقاعدہ مقدمہ درج کرکے ا ن کو عدالت سے سزا بھی ہوئی۔انہوں نے مزید کہا کہ پیر کرم علی شاہ نے دوسری مرتبہ آرکائیو لایبریری پشاور میں بھی اس قسم کا Tempering یعنی دھوکہ دہی کی کوشش کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پیر کرم علی شاہ نے آرکائیو لایبریری کے ایک سند پر اس وقت کے چیف لایبریرین شاہ مراد جو چترال کا باشندہ تھا اس سے Attest کرواکے پہلے سند کی طرح چترال کے لینڈ سٹلمنٹ آفیسر یعنی افسر مال کے دفتر میں جمع کرکے اس کے ذریعے 85000 کنال زمین اپنے نام درج کروایا۔شوکت علی، دیدار احمد وغیرہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ اس وقت چترال سے منتحب رکن صوبائی اسمبلی پر لوگ شک کرتے ہیں کہ اس نے آرکائیو لائبریری سے اس جعلی سند پیر کرم علی شاہ کو حوالہ کرنے میں مدد کی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس سند کو بھی پیر کرم علی شاہ کے ایک رشتہ دار سید اکبر حسین شاہ نے عدالت میں چیلنج کیا جب آرکائیور لائیبریر ی سے رابطہ کیا گیا تو ان کے پاس اس سند کا اصل موجود نہیں تھا اور اس سے ثابت ہوا کہ پیر کرم علی شاہ نے جو سند پیش کیا تھا وہ جعلی تھا۔ان عمائدین نے یہ بھی الزام لگایا کہ پیر کرم علی شاہ چونکہ اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء تھے اس نے اپنے احتیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے لینڈ سٹلمنٹ افسر کے ذریعے یہ تحریر کروایا کہ یہ زمین ان کو  قوم خوشامدے کے بزرگوں نے وقتاً فوقتاً یہ زمین تحفہ میں دیا ہے۔ ان لوگوں کا موقف ہے کہ اس افسر نے بھی غلط بیانی سے کام لیا ہے اور جس طرح پیر کرم علی شاہ کے پہلے دو سند جعلی ثابت ہوئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم خوشامدے والا سند بھی جعلی ہوگا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ پیر کرم علی شاہ نے پہلے 85000 ہزار کنال زمین اپنے نام کروائی تھی۔جس کے سند جعلی ثابت ہونے پر 1100 کنال رہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ بقایا زمین کی سند کو بھی پشاور ہائی کورٹ کے سوات دارلالقضاء بنچ میں چیلج کیا گیا اور اس کے بعد اس کے پاس 561 کنال زمین رہ گئی۔ تاہم سابق لینڈ سٹلمنٹ افسر نے اس کے کھاتہ کتونی میں 391 کنال زمین  ڈوکن شال اور پولش گاز میں رہنے دیا جو غلط ہے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم 54گھرانے ہیں  مگر بے بس ہونے کی ناطے پیر کرم علی شاہ نے ہمارا حق ہم سے چھین لیا ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ چرون کے حکیم نے جب  قوم خوشامدے کے بارے میں جب غلط قسم کا تحریر پیش کیا تھا تو اس وقت کے حکمران یعنی مہتر چترال نے چرون کے حکیم کو اپنے عہدے سے 1932 میں معزول کیا تھا۔مگر 1948 میں وہ دوبارہ آکر پیر کرم علی شاہ کے حاندان سے مل کر ہماری زمین پر قبضہ جمایا اور چند لوگوں کو بھی زمین کی لالچ دیکر ان کو  بھی اپنے ساتھ ملایا۔ ان متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان اور اعلےٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ اس سلسلے میں جوڈیشل انکوائیری کی جائے تاکہ دودھ  کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور جن سرکاری افسران اور اہلکاروں نے پیر کرم علی شاہ کے ساتھ تعاون کرکے ان کو جعلی اسناد فراہم کی ہیں یا ان جعلی سندوں کے ذریعے اربو ں روپے کی زمین ان کے نام درج یا رجسٹری کرائی ہے ان کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔ان متاثرین کی نمائندگی کرتے ہوئے  شوکت علی، علی احمد، محمد علی اور ہیبت علی وغیرہ نے کہا کہ اگر کوئی غیر جانبدار، ایماندار افسر  اس کی انکوایری کرے تو ہم اپنے حق میں تمام ثبوت اور اسناد پیش کرسکتے ہیں۔ہمارے نمائندے نے ضلع اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر سے بھی ان متاثرین کے ہمراہ  ان کے دفتر میں جاکر اس کیس کی اصل حقیقت جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہان کا حال ہی میں یہاں تبادلہ ہوا ہے انہیں اس کیس کے بابت زیادہ معلومات نہیں ہے تاہم انہوں نے متاثرہ لوگوں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کو تحریری درخواست دے اور اس کے ساتھ تمام دستاویزات ثبوت کے طور پر لگائے تو وہ اس کے بارے میں متعلقہ اداروں سے معلومات لیکر اس پر کاروائی کریں گے۔ہمارے نمائندے نے صحافتی اقدار اور اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے دوسرے فریق کا بھی موقف جاننے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں پیر کرم علی شاہ کے بیٹے جلال علی شاہ سے رابطہ کرکے ان کا موقف لینا چاہا جس پر اس کے محتار حاص  حیات حسین  سے ان کے دفتر جو بونی میں واقع ہے  جاکر ان سے معلومات حاصل کی۔ان کے ساتھ کوثر علی شاہ، روزگار ولی شاہ، سیدحسین شاہ بھی موجود تھے۔حیات حسین شاہ نے کہا کہ پیر کرم علی شاہ کے ساتھ ہمارا 2019 میں معاہدہ ہوا۔اس وقت اس کے محتار حاص سید باچا تھے جن ذریعے پیر کرم علی شاہ کے ساتھ ہمارا معاملہ طے پایا گیا۔اس وقت ابراہیم پیر زادہ اور برہان شاہ ایڈوکیٹ  ہمارے مقابلے پر آکر انہوں نے ہماری محالفت کی۔حیات حسین نے بھی الزام لگایا کہ جوڈیشل کونسل ڈپٹی کمشنر لوئیر چترال میں وہ جعلی سند ابراہیم پیر زادہ اور  برہان شاہ کی سازش کے تحت  وہاں رکھا گیا اور بعد میں برآمد کراکر پیر کرم علی شاہ کے بیٹے کو بدنام کیا گیا۔اس وقت پیر کرم علی شاہ کے ساتھ ان کے ایک رشتہ دار اکبر حسین شاہ کا میراث کا کیس چل رہا تھا۔ اکبر حسین نے جولائی 2019کو ہمارے حلاف کیس کیا جو سول جج صاحب چترال کے عدالت میں ابھی تک چل رہا ہے۔ جبکہ برہان شاہ اور ابراہیم پیرزادہ کا کیس بستہ خاموشی میں چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جونالی کوچ کے اہلیان نے بیس اکتوبر2019 کو دارالقضاء سوات میں کیس کیا کہ پیر کرم علی شاہ اور قبضہ مافیا نے  قاقلشت کے مقام پر 73000 کنال زمین پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔اس وقت وہاں پیر کرم علی شاہ وغیرہ گھر بنارہے تھے تو محالف فریق کو عدالت سے حکم امتناعی مل گئی۔15 جون 2020 تک یہ Stay order برقرار رہا اس کے بعد حتم ہوا۔اور اکیس، بائس پیشیوں کے بعد پیر کرم علی شاہ کے نام 782 کنال زمین رہ گئی جبکہ قاقلشٹ میں 84000 کنال زمین ہے۔پشاور ہائی کورٹ کے سوات بنچ یعنی دارلاقضاء سوات میں جو کیس دائیر کیا گیا تھا اس میں وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ، چیف سیکرٹری، ایس ایم بی آر، سیکرٹری مالیات، ہوم سیکرٹری،ضلعی انتظامیہ اور ہمارے حلاف بھی کیس دائیر کیاگیا۔جس پر دارلقضاء نے ڈپٹی کمشنر سے رپورٹ طلب کی جس پر اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر نے  افسر مال وغیرہ سے معلومات لیکر  جواب دیا کہ قاقلشٹ میں 80000 کنال بنجر زمین پڑی ہے جس میں ایک ہزار کنال زمین سرکاری یعنی صوبائی حکومت کی ہے۔جب سیلاب کی وجہ سے چند لوگوں کا گھر تباہ  ہوا تھا تو انہوں نے قاقلشٹ میں گھر بنا یا تھا۔ اس کے بعد ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے ڈوکان شال میں 561کنال 16 مرلہ زمین پیر کرم علی شاہ کی  ملکیت تسلیم کی۔اور یوں ہمیں 782 کنال زمین  سٹلمنٹ آفیسر نے دیا۔ اس میں سے 166 کنال زمین منہٰی کردیا  جو غیر ممکن پہاڑی ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ جب پیر کرم علی شاہ کے پاس اصل سند موجود تھا تو ان کو کیا ضرورت تھی کہ جوڈیشل کونسل ڈپٹی کمشنر کے محافظ حانہ سے ایک جعلی سند کو منسوب کرایا جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ برہان شاہ ایڈوکیٹ نے رکوایا تھا تاکہ پیر کرم علی شاہ کو بدنام کا جائے  مگر اس سند پر پیر کرم علی شاہ کے نام جو زمین درج یا رجسٹری ہوئی اس کا کوئی حاطر حواہ جواب نہیں ملا۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے جونالی کوچ میں احتجاج اور پریس کانفرنس کیا وہ وہاں کے اصل باشندے نہیں ہیں بلکہ دوسرے علاقوں سے آکر آباد ہوئے ہیں۔انہوں نے انکشاف کیا کہ پیر کرم علی شاہ کے گھر تین قسم کے لوگ خدمات سرانجام دیتے ہیں ایک خلیفہ جو نکاہ، خطبہ وغیرہ کراتے ہیں دوسرا میری شکاران جو پیر صاحب کیلئے شکار کرتے ہیں اور تیسرا سرکار  یہ لوگ پیر صاحب کے کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان کیلئے اناج اکھٹا کرتے ہیں۔ان خدمت کرنے والوں کو غفور شاہ کے والد  مرحوم نے 11 چکورم یعنی  ساڑھے پانچ ایکڑ زمین دی تھی۔ یہاں AKRSP نے پانی کیلئے ایک نہر بھی بنایا ہے۔1984 میں شاہ ملات دیہہ کے بابت خاندان کبیر سلطان، صلا ح الدین،مرزا گل  نے پیر کرم علی شاہ کے نام سے سڑک کا معاوضہ بھی لیا ہے۔دس اکتوبر 2002 کو  فاضل جج صاحب امجد حسین ایڈیشنل سیشن جج چترال نے فیصلہ سناتے ہوئے ان کے مقدمے کو حارج کیا جو اہالیان جونالی کوچ بنام پیر کرم علی شاہ کے نام سے درج ہوا تھا۔حیات حسین نے کہا کہ یہ زمین اب میرے نام پر رجسٹری ہوا ہے  اور میں نے پیر کرم علی شاہ کے بیٹے جلال علی شاہ کو ایک کروڑ روپے ادا کئے ہیں جو دس جون 2921 کو میرے نام پر رجسٹر ی ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ پیر صاحب کے خلیفہ گان تین سو سال سے یہاں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ پیر کرم علی شاہ کے پاس قبرستان مانگنے آئے تھے۔تاہم یہ واضح نہیں ہوا کہ پیر کرم علی شاہ نے  آرکائیو لایبریری  پشاور سے کیوں ایک جعلی سند پیش کیا تھا۔ اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے  اس وقت پشاور جاکر آرکائیو لایبریر ی کے ڈائیریکٹر ظہیر اللہ خان سے باقاعدہ مل کر ان کا موقف لینے کی کوشش کی۔ان سے جب پوچھا گیا کہ اس لائبریری کے ریکارڈمیں  صفحہ نمبر 8،بنڈل نمبر 22  سیریل نمبر 224میں جو ایک کاغذ پیر کرم علی شاہ نے پیش کیا ہے اس کی اصل سند دکھائے تو ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے اس سند کا اصل یعنی اوریجنل یہاں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں چترال سے تعلق رکھنے والے ایک چیف لائبریرین تھا شاہ مراد خان  یا تو انہوں نے کسی چترالی پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ اصل سند اس کو فوٹو سٹیٹ کرنے کیلئے دیا تھا جسے چرایا گیا یا پھر اس نے اس چترال کے درخواست کنندہ پر اعتماد کرتے ہوئے غلطی سے ایک جعلی سند کو Attest کرکے اس کی اصل ہونے کی تصدیق کرلی۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اس ریکارڈ کی ذمہ داری کس کی ہے تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس کی ذمہ داری ہماری ہے۔مگر ہمارے ایک افسر سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے کہ اس نے بغیر تصدیق کے ایک جعلی سند کو   Attest  کرکے دیا۔ قاقلشٹ اور جونالی کوچ  کی زمین  پر دو فریقوں کے درمیان جھگڑا پنی جگہہ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جوڈیشل کونسل چترال اور آرکائیو لایبریری پشاور کے اہلکاروں نے کیوں ایک جعلی سند پر دستحط کرکے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کی اس کے ہمارے نمائندے نے اس رپورٹ کی شفافیت کیلئے ایک بار پھر پشاور رابطہ کرکے آرکائیو لایبریری کے ڈایریکٹر میڈم راحیلہ حفیظ سے رابطہ کرکے ان سے پوچھا کہ اس سند کا اصل اس لائبیریری میں موجود ہے تو جواب نفی میں ملا۔ ان سے جب مزید پوچھا گیا کہ اس لائبریری کے کیا اصول ضوابط ہیں کسی سند کی تصدیق یعنی Attestation کس سے کی جاتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے باقاعدہ  ریسرچ آفیسر مقرر ہے اگر وہ موجود نہ تو  پھر اس صورت میں ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ اس سند کو Attest کرسکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شاہ مراد چونکہ چیف لایبریرین تھے اور قانون کے مطابق وہ کسی سند کو Attest کرنے کے مجاز ہی نہ تھے اگر انہوں نے اس جعلی سند پر مہر تصدیق ثبت کی ہے تو انہوں نے غلط کیا ہے۔ان سے بھی ان کا موقف لینے کیلئے کہا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ پہلے سابقہ ڈایریکتر  اور سابقہ چیف لایبریرین جو ملازمت سے ریٹائر ہوچکے ہیں ان سے پوچھ کر جواب دے سکے گی۔اس سلسلے میں چترال کے  محکمہ مالیات کے ایک سابقہ افسر سے بھی پوچھا گیا جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیر کرم علی شاہ نہایت لالچ کرتے تھے اور انہوں نے جعلی سند کے ذریعے تین سو کنال سے زیادہ سرکاری زمین بھی اپنے نام درج کروائی ہے جو سراسر زیادتی ہے

Share and Enjoy !

Shares

اپنا تبصرہ بھیجیں