0

ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، صدر امان اللہ وزیر

وانا (مانند نیوز) پاکستان پیپلز پارٹی لوئر وزیرستان کے ضلعی صدر اور نیشنل اسمبلی امیدوار امان اللہ وزیر، ضلعی جنرل سیکریٹری، سابق صوبائی اسمبلی امیدوار عمران مخلص وزیر، سئینر رہنما ہمایون صاحب،  ہارون محسود، وی سی علمی  چیئرمین احمد خان وزیر، نیبر ہوڈ کونسل چیرمین وارے خان وزیر کے علاؤہ کثیر تعداد میں جیالوں نیلوئر وزیرستان وانا کڑیکوٹ بازار میں پیپلز پارٹی کے 55 یوم تاسیس کو بڑے دھوم دھام سے منایا۔ اس موقع پر ضلعی صدر امان اللہ وزیر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، قائد عوام  بھٹو شہید کے منشور کو دیکھ کر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ  پیپلز پارٹی شامل ہوتے رہے جن میں جاگیردار بھی شامل تھے۔ سرمایہ دار بھی اور سردار بھی مگر حقیقیت یہ ہے کہ بنیادی طور پر پیپلزپارٹی مدتوں سے استحصال کے شکار غریبوں، محنت کشوں مزدوروں، کسانوں اور طالب علموں کی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اگر یہ کہا جائے تو بھی درست ہوگا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد ہی ایک خوبصورت تبدیلی تھی۔  قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے شعور کی ایسی شمع جلائی جو تابناک سورج میں تبدیل ہوگئی، کچلے ہوئے محرومیوں کے شکار پسے ہوئے لوگوں کو شعور اور زبان مل گئی،ننگے پاوں پھٹے ہوئے لباس والوں کو حوصلہ اور طاقت ملی کہ سیاسی  تاریخ میں پہلی بار پیپلزپارٹی کے جلسوں میں سرمایہ داری مردہ باد کے نعرے لگے۔ضلعی جنرل سیکریٹری اور سابق صوبائی اسمبلی امیدوار عمران مخلص وزیر نے کہا کہ 1950 اور 1960کی دہائی کے دوران اس دنیا کے نقشے پر بے شمار نئے لیڈر پیدا ہوئے ذوالفقار علی بھٹو ان تمام لیڈروں کے بھی لیڈر تھے جنھیں1960 سے 1970 کے دورکے ایشیاء کے سب سے بڑے لیڈر مانا جاتا تھا۔ یہ 5 جنوری 1928 کا دن تھا۔ لاڑکانہ کے قریب خورشید بیگم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیٹے کے نور سے بھرتے ہوئے رحمتوں کا منبع بنا دیا۔ ماں جی کے بدن میں مسرت کے پھول پھوٹنے لگے۔ بیٹے کے نام کی تلاش، ماں جی چھان بین کی وادی میںچلی گیں۔ بولیں! بیٹے کا نام ایسا ہو جس سے کائنات میں ہمدردی، اچھائی، بھلائی کی پیروی ہو۔ عدل و انصاف کے علم،جس پر عمل سے اصولوں پر مر مٹنے والا ہو۔ ماں جی سر پر چادر درست کرتے ہوئے رکیں، یکدم دماغ کی تہہ میں قدرت کا نورگرِا۔ماں جی بولیں، بیٹے کا نام ذولفقار رکھنا ہے۔ جس کے معنی  تلوار جو حسبِ روایت خاتم النبیاء ؐکو مالِ غنیمت میں ملی تھی۔ آپ ؐ نے انتہائی پیار محبت میں حضرت علیؓ کو بخش دی۔ یہ تلوار ناانصافی، ظلم، جبر کو صفحہ ہستی سے مٹانے والی ثابت ہوئی۔ کائنات کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی صراطِ مستقیم کی طرف لائی۔ ماں جی نے انکھوں میں آنسو صاف کیے اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، علی کا مقدس لفظ بھی ساتھ شامل کرنا ہے۔جن کے بے پناہ علم و تدبر اور بے انتہافہم و فراست سے کاینات میں بدی کے اندھیرے مٹ گے۔اس موقع پر سینئر رہنما ہمایون نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زولفقار علی اور ساتھ خاندان کا نام شامل کرتے ہوئے زولفقار علی بھٹو نام رکھا۔ ذولفقار علی بھٹو،زولفقار علی بھٹو پکارتے پکارے ماں جی رکی۔ کچھ غور و فکر کے بعد پھربولی، مقدس ترین کتابوں کے الفاظ کا شریں شربت پلاوٗں گی۔ میرا بیٹا اپنے باپ کی طرح بڑا بنے گا۔ دبے ہوئے مسلمانوں کو ہر مصیبت سے نکالے گا۔ جب انسان دبے ہوئے بے بس کو مصیبت سے نکالتا ہے تو تمام عبادات سے افضل و اعلیٰ فرائض پورے کرتے ہوئے خدا کی مدد و امداد نصیب کر رہا ہوتا ہے۔ مسلمان جب صبح جلدی اچھے عمل کیلے علم حاصل کر رہا ہوتا ہے تو اپنی نسلوں کو خوشحالی کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔ مسلمان جب سچا اور ایماندار ہو جاتا ہے، دوسروں میں امتیاز پاکر عزم و ہمت والا ہو جاتا ہے۔ ماں جی نے ابتدائی تعلیم خیرالبشرؐ  کے بیغام  سے دی۔ پھر جان کونن بمبی سے تعلیم حاصل کی۔ 1943 میں زولفقار علی بھٹو کی پہلی شادی شریں امیر بیگم سے ہوئی۔1947 میں پولیٹیکل کی تعلیم کیلے کیلیفورنیا یونیورسٹی بر کلے چلے گے۔ 1950میں کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے سے پولیٹیکل سائنس میں آنر کی ڈگری حاصل کی۔1951میں نصرت اصفانی سے شادی ہوئی۔ شادی کے بعد بھٹو نے بیگم نصرت بھٹو سے کہا، دونوں نے مل کر غریب عوام کو مضبوط کرتے ہوئے ملک کو خوشحال کرنا ہے۔ زندگی کا سفر عزم و ہمت کے پروں سے کرنا ہے۔ بھٹو کی ماں جی خورشید بیگم، بھٹو کی رگوں میں عدل و انصاف کی تعلیم پیوست کر چکی تھیں۔ غیرت اور عزت سے جینے کا علم دماغ کی تہہ میں بچھا چکی تھیں۔ ماں جی نے بھٹوکو بار بار ذہن نشین کرتی رہیں، بیٹا جی مسلمانوں کی تحقیق، تخلیق، ایجادات کے چشمے لمبی مدت سے خشک، ویران، اجڑے پڑے ہیں۔ یہاں پر سکولوں میں جاگیرداروْں کے جانور رہتے ہیں۔ مسلمان قوم تعلیم میں تحقیق، تخلیق میں غیر قوموں سے بہت کمزور اور پیچھے رہ گئی ہیں۔ آپ نے بے انتہاعزم و ہمت سے قوم کو بدلنا ہے۔ مسلمان قوم کو خودار اور خودمختار اور سخت محنت مشقت والا بنانا ہے۔ مسلمان قوم کے بچوں کو سکول میں لا کر سائنسی تعلیم کی تحقیق، تخلیق اور چھان بین کے سر چشموں کو پھر سے بحال کرنا ہے۔ نئی ایجادات کرنے کے بعد ہی یورپ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔یورپ نے اپنے بچوں کو تعلیم کا زیور دے کر حکمیت کا تاج پہنا یا ہے۔ صبح شام استعمال کی ہر چیز یورپ اپنے ہاتھوں سے بنا رہا ہے۔ بچے کھیت میں سورج کی کرنوں سے، فیکٹری میں آگ کی تپش سے کندن بن چکے ہیں۔ غیر مسلم کے ہاتھ سے فن و ہنر سے سجے ہوئے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے بچو ں کو فن و ہنر کی بلندیوں تک لے کر جانا ہے۔تاکہ ہمارے بچے دوسروں کو کچھ دینے کی لذت اور روحانی مسرت سے آشنا ہو سکیں۔ بچوں کو پھول بنانا ہے۔ پھول شبنم کا قطرہ پی کر فضا کو معطر کرتا ہے۔سورج کی کرنیں سمیٹ کر بدن کو مزید رنگین ور کھلتا ہوا خوبصورت بناتا ہے۔ خالی دماغ بدآمنی، شرارت، فتنہ، فسادتخلیق کرتا ہے۔ علم و فن سے روشن و منور دماغ انسانی بھلائی کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ جگہ جگہ بھٹو نے عوام کو جمع کیا اور مشورہ لیا۔ کام کرو گے۔ لڑو گے۔ ہمت کرو گے۔ محنت لگن سے ملک کی تقدیر تبدیل کرو گے تو میں تمھارے ساتھ ہوں۔ تاکہ جہالت کے صحرا کو الوداع کر سکیں۔ سستی غفلت پر لعنت کی مٹی ڈال کر، وقت پر کام کر نے والے چست پھرتیلے ہو سکیں۔سست، سوئی ہوئی  غافل قوم کو عقل شعور کا شربت پلاتے گے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے تیر کھاتے کھاتے ملک و قوم کو بے حساب دیا۔ آخر غیر مسلم اور اپنوں کے تیر سے 4 اپریل 1979 کو بھٹو شہید ہوئے اور لاکھوں کروڑوں آہوں اور سسکیوں میں دفن ہوئے۔ وی سی غلجہ چیئرمین احمد خان وزیر نے کہا کہ آج سے نئے عزم اور ولولے سے ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے غریب عوام اور مظلوم طبقوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہنگے اور اس کی حقوق کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

Share and Enjoy !

Shares

اپنا تبصرہ بھیجیں