0

ضلع کرم بھی طورخم بن سکتا ہے

پارچنار (مانند نیوز) اگر ھم تاریخی پس منظر کو دیکھے توہم کو یہ معلوم ہوجاۓ گا۔کہ پاکستان کا افغانستان اور وسطیٰ ایشیاء کے ممالک کا آمد ورفت کے کیساتھ ساتھ کاروباری معاملات براستہ طورخم, کرم اور غلام حان کے راستوں پر ہوا ہے۔پاک افغان خرلاچی بارڈر پر تعینات کسٹم انسپکٹر ناصر علی نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان صوبہ خیبر پختونخوا کے چار راستوں میں سے تیسری نمبر پر ضلع کرم کا راستہ ہے۔جہاں سے سالانہ 4195،غلام خان کے رستے سے 11000 اور طور خم سے 32000 گاڑیوں کے درآمدات اور برآمدات ہو چکے ہیں۔ جنمیں فریش فروٹ سیب،انار،انگور،خربوزہ، تربوز کے برآمدات ڈرائ فروٹ میں چلغوزہ،آخروٹ,بادام,پستہ, کشمش,انجیر,حوبانی وغیرہ درآمد کیے جاتے ہیں۔ پاکستان سے کینو,آم,کیلا,امرود اور سبزیاں برآمد کی جاتے ہیں۔پاکستان ذیادہ ترکپڑا,تعمیراتی سامان,سریا,سیمینٹ,گھریلوں سامان وغیرہ بھجتے جاتے ہیں۔کئ سالوں سے افغانستان پاکستان کو سب سے ذیادہ کوئلہ فروخت کرکرنے والا ملک ہے۔ اسکے علاوہ افغانستان کرومائیٹ,سوپ سٹون اور دوسرے معدنیات پاکستان کو فروخت کرتے ہیں۔ خرلاچی بارڈر پر کام کرنے والے ایک تاجر اسلام علی نے ہمیں بتایا کہ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا سب سے لمبا بارڈر ڈیورنڈ لائن افغانستان کے ساتھ لگتا ہے۔جنکی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان مختلف مقامات پر آمدورفت اور کاروبار بھی ہوتاہے۔ اگر ہم وسطی ایشیاء کے ممالک اور روس کو دیکھے۔ تو وہاں کےممالک قدرتی گیس,کوئلہ اور دیگر قدرتی ذخائر سے مالامال ہیں۔اسلیۓ اُن ممالک کو افغانستان سے ذیادہ تر چیزیں خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔اسلیۓ پاکستان اور عرب ممالک افغانستان اور ایران کے حشک میوہ جات اور دوسرے اشیاء کلیۓ بہترین منڈی ہے۔ اسلیۓ پاکستان افغانستان کے ساتھ کاروباری تعلق اچھا رکھتا ہے۔تاکہ وہ اپنے اشیاء اچھے طریقے سے برآمد کرسکے۔ اگر ضلع کرم کی بات کی جائے تو 2006 سے 2010 تک دہشتگردی کے لہر نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہت متاثر کو بہت متاثر کیا۔ تاہم ضلع کرم میں رہنے والے لوگوں کی زیادہ تر آ بادی طوری و بنگش اقوام پر مشتمل ہیں۔ اور افغانستان کے ننگرہار،پکتیا،اور پکتیکاکے صوبوں میں مینگل،خروٹی، جدران اور جاجی اقوام آباد ہیں۔ طوری اور جاجی اقوام کی تاریخی اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رہ چکے ہیں۔مختلف قسم کے معاہدے بھی تحریر کرچکے ہیں،
دونوں قوموں کے عمائیدین نے کئی عشرے پہلے ایک ایسا معاہدہ کیا تھا۔کہ جسمیں واضح طور پر ایک دوسرے کو یہ یعقین دلایا گیا ہے۔ کہ ہمارے ممالک اور دوسرے قوموں کے درمیان جو بھی حالات ہوں لیکن ہم ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھیں گے۔ جنکی بدولت 2008 سے لیکر 2011 تک جب دہشتگردی کی وجہ سے ضلع کرم پر ایک بیرونی جنگ مسلط کی گئی۔ جنکی وجہ سے ٹل پاراچنار کا راستہ ہر قسم کی آمدورفت کیلئے بند کیا گیا تھا۔اس وقت افغانستان صدر اشرف غنی کے دور حکومت میں ضلع کرم کے عمائیدین نے جاجی قوم کی ساتھ ملکر پہلے سے کیئے گے معاہدے پر عمل کرکے صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔اور یہ مطالبہ کیا کہ ہم ضلع کرم کے قبائل افغانستان کا راستہ استعمال کرکے گردیز سے کابل پھر وہاں سے جلال آباد کے راستے سے طورحم جائینگے۔پھر وہاں سے طورخم بارڈرکے ذریعے پشاور جایئنگے۔اُس وقت افغان حکومت کے ساتھ یہ معاہدہ کامیاب ہوا۔اور ضلع کرم کے لوگوں کو اجازت مل گئی اور کئی سالوں تک کرم کے لوگ براستہ افغانستان پشاور جاتے تھے۔ اس معاہدے سے نہ صرف لوگوں کی آمدورفت میں آسانی پیداہوگئی تو دوسری طرف افغانستان کے کاروباری لوگوں جیسا کہ ڈرائیور،ٹریول ایجنٹس،ہوٹل اور جنرل سٹور سے وابستہ لوگوں کو بڑا فائدہ ہوا۔ساجد حسین جو ایک لوکل تاجر اور کسٹم کلیئرنس ایجنسی کا مالک ہے اسکا کہنا ہے کہ ہم اگر ضلع کرم کے لوگوں کی بات کریں تو یہاں لوگوں کی آبادی تقریبا چھ لاکھ ہے۔اس آبادی میں ذیادہ تر لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔کچھ لوگ سرکاری اور غیر سرکاری نوکریاں کرتے ہیں۔اور لوگوں کا کچھ حصہ باہر خلیجی ممالک،یورپ، آسٹریلیا،کینیڈا میں تعلیم اور کاروبار کے غرض سے مقیم ہیں۔سالانہ کرڑوں روپے کی آمدن زرمبادلہ یا Foreign Remittance کی شکل میں اپنے علاقے کو بھیجتے ہیں۔جنکی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کی زندگی بہت سہل اور کامیاب ہے۔یہ رقم بچوں کی تعلیم،صحت،گھریلوں ضروریات کے ساتھ ساتھ ریئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی کاموں میں استعمال ہوتے ہیں۔جنکی وجہ سے ضلع کرم میں ترقی اور حوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔جن لوگوں کے ساتھ دولت ذیادہ ہے یا بارڈر کے علاقوں میں رہتے ہیں۔ جیسا کہ تری مینگل،بغدی،بوڑکی،خرلاچی اور مالی خیل وغیرہ مختلف قسم کے کاروبار میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ لوکل کاروبار میں ذیادہ تر جنرل سٹور، ریئیل اسٹیٹ،تعمیراتی سازوسامان،زرعی اجناس اور گاڑیاں وغیرہ کے کاروبار ہوتے ہیں۔لیکن افغانستان کے ساتھ بھی مذکورہ چیزوں کی کاروبار ہوتا ہے۔کسٹم دفاتر 2007 میں قائم کئے گئے تھے مگر 2007 کی فسادات کی وجہ سے بند تھے پھر 2015 میں شروع کردئے گئے اور فروری 2016 میں ان کو ون کسٹم سسٹم (سیٹلائٹ) کیساتھ ملک کے کسٹم نظام کیساتھ منسلک کیا گیا۔ لوگ زیادہ تر لوکل انداز سے ٹریڈ کرتے تھے۔ جب سے NLC (نیشنل لوجیسٹک کارپوریشن) آئی ہے لوگوں کی کاروبار پر بہت اثر پڑا ہے۔اب یہاں کسٹم کے علاوہ دوسرے محکمے بھی آچکے ہیں۔جو مختلف درآمدات اور برآمدات پر حکومت پاکستان کیجانب سے مجوزہ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگا کر گاڑیوں کو سرحد پار کرنے دیتے ہیں۔
پاک افغان خرلاچی بارڈر پر تقریبا 25 کسٹم کلیئرنس ایجنسیز کام کرتے ہیں جن میں 12 ایجنسیز لوکل اور باقی غیر مقامی لوگوں کی ہیں۔بارڈر پر موجود تاجر برادری کسٹم حکام اور NLC کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں۔ کیونکہ جتنا ٹیکس لیا جاتا ہے اتنی سہولیات نہیں دیتے۔سید مبین حسین کرم ٹریڈ یونین صدر اور جاوید حسین طوری کرم ٹریڈ یونین کے عہدیداران ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ افغانستان سے کاروبار مختلف ادوار میں مختلف قسم کے حادثات اور خراب صورت حال کی وجہ سے نقصان کا سامنا رہ چکا ہے۔سارے تاجر برادری حکومت اوروہاں کام کرنے والے NLC، کسٹم حکام اور دیگر اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں۔کہ ہمیں سارے سہولیات دی جائے تاکہ ہم اپنے کاروبار کو آگے بڑھاسکے۔کرم ٹریڈ یونین کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پہلے یہاں لوگوں کا آنا جانا آسان تھا۔ جب سے بارڈر پر جال لگایا گیا ہے تب سے عام لوگوں کو سفری دستاویزات کی وجہ سے کافی مشکلات درپیش ہیں۔ جو لوگ پاکستان کو کسی کام کے غرض سے آنا چاہتے ہیں۔ تو وہ پہلے پاک آرمی کرم بریگیڈ سے NOC حاصل کرے گا اور ایک پاکستانی ان افراد کا ضمانت کرے گا پھر وہ لوگ بارڈر کو کراس کرکے متعین شدہ دنوں تک پاکستان میں رہ سکتا ہے۔دوسری جانب ضلع کرم میں پاک افغان خرلاچی بارڈر پر ایک مہینہ پہلے مقامی باشندوں کی آپس میں زمینی تنازعے پر لڑائی ہوئی جو بعد میں ایک خطرناک جنگ کی صورت میں تبدیل ہوگیا۔جسمیں پاک آرمی کے جوانوں کے ساتھ مقامی باشندے بھی زخمی ہوگئے۔ جنکی وجہ سے کئی دنوں تک بارڈر بند ہونے کی وجہ سے سارا کاروبار بھی بند ہوگیا۔یہاں تقریبا تین ہزاردیہاڑی دار مزدور بیروزگار ہوگئے۔اسکے ساتھ ساتھ ڈرائیور حضرات،ہوٹل مالکان،جنرل سٹور،نان بائیان،آٹومیکینک اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں افراد کو کافی نقصان ہوا۔پاک یوتھ مومینٹ کے صدرمیرافضل خان طوری جو کہ ایک سوشل ایکٹیوسٹ بھی ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ ہم ضلع کرم کے عوام حکومت سے باربار اپنے مطالبات،پریس ریلیز،پریس کانفرنسز میں کوہاٹ تا پاراچنار موٹر وے بنانے کے مطالبے کرچکے ہیں۔لیکن تا حال کوئی مثبت جواب نہیں ملا ہے۔پاک یوتھ مومینٹ اور ضلع کرم کے عوام کا یہ بھی ایک مطالبہ ہے کہ اگر حکومت موٹروے نہیں بناسکتے تو کوہاٹ سے خرلاچی بارڈر تک روڈ کو سی پیک منصوبے میں شامل کیا جائے تاکہ عوام کو سفری سہولیات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تجارت کے لیئے ایک نیا سنگ میل ثابت ہو سکے۔ جنکی وجہ سے نہ صرف یہاں کے عوام کو فائدہ ہوگا بلکہ حکومت پاکستان کو انکم ٹیکس، کسٹم،NLC کارپوریشن،دیگر اداروں اورلوگوں کو ان سے کافی فائدہ مل سکتا ہے۔عابدحسین اور شجاعت حسین دونوں پاک افغان بارڈر پر قیمتی پتھروں،ماربل،سوپ سٹون اور کرومائٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اگر ہمارے علاقے کے سڑکوں کو سی پیک کا حصہ بنایاجائے تو نہ صرف افغانستان کے ساتھ ماربل اور سوپ سٹون کے کاروبارکو بڑی تقویت مل سکتی ہیں۔بلکہ ضلع کرم کے سب سے بڑے پہاڑ کوہ سفید میں موجود معدنیات کو نکال کر پورے پاکستان میں تجارت کیلئے ترسیل ہو سکتی ہے۔طورحم اور غلام خان بارڈر پر جو کاروبار ہم سے کئی گنا ذیادہ ہے وہ صرف اس وجہ سے ہیں۔ کہ وہاں کے سڑک انٹرنیشنل معیار کے مطابق بنائے گئے ہیں۔وہاں پر کسٹم ڈیوٹی،سکینیگ،کانٹا،پیکینگ ہاوس اور دوسرے چیزیں جو تجارت کے ساتھ منسلک ہیں سارے کے سارے حکومت کی طرف سے فراہم کیئے گئے ہیں۔اگر حکومت یہ سہولیات ہمارے علاقے میں بروقت مہیا کرتے ہیں اور سڑکوں کو سی پیک میں شامل کرتے ہیں۔تو ہم بھی چند ہی سالوں میں غلام خان اور طورخم بارڈر کے برابر کاروبار کرسکتے ہیں۔جنکی وجہ سے ملک و قوم کیلئے ترقی کا ایک نیا دورشروع ہوگا۔

Share and Enjoy !

Shares

اپنا تبصرہ بھیجیں