0

بورڈ امتحان اور ایس ایل او

اداریہ (مانند نیوز) حال ہی میں خیبرپختونخوا کے تعلیمی بورڈز کی جانب سے جماعت نہم کے طلبہ کے لیے ایس ایل او کی بنیاد پر امتحان کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے جو بعد میں ترتیب وار دہم اور انٹر کلاسز میں بھی نافذ کیا جائے گا۔ ایس ایل اوز کے بنیاد پر امتحانات کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ آج کل رٹہ بازی اور نقل کلچر اتنا رواج پاچکا ہے کہ جانچ پڑتال میں قابل اور نالائق طالب علم کا فرق محال ہوچکا ہے۔ ایس ایل اوز کے نفاذ سے ایک طرف رٹہ بازی سے نجات ممکن ہے، دوسری جانب نقل کلچر کے لیے بھی بمنزلہ زہر کے ہے۔
ایس ایل اوز کیا ہے اور اس کا نفاذ کیساممکن ہے؟ اس کے اسان الفاظ میں سمجھنے کے لیے اکثر طلبہ منتظر بھی ہے اور کافی پریشان بھی۔ گو کہ بعض طلبہ نے اس کو ایک مشکل معمہ سمجھ لیا ہے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ رٹہ سسٹم کے مقابلے میں یہ اسان ہے ۔طلبہ کے ذہنی دباؤ کے سلسلے میں یاد آیا۔ پچھلے دنوں میں کسی کام کے سلسلے میں پبلک ٹرانسپورٹ میں جارہا تھا۔ پاس والے سیٹ پر دو طلبہ بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ ایک نے کہا کہ یار امتحان ایس ایل اوز بنیاد پہ ہوگا، کافی مشکل ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے طالب علم نے ایس ایل اوز کی وضاحت کی کہ پرچہ مکمل ایم سی کیوز پر مشتمل ہوگا۔ پہلے طالب علم نے بھی ایم سی کیوز پر اتفاق کیا۔ کافی دیر تک اسی موضوع پہ گپ شپ لگا رہے تھے۔ پریشان بھی تھے شاید اس لیے کہ ایم سی کیوز کے لیے گائیڈ مشکل سے کام آئے گا۔ حالانکہ ایس ایل اوز کا مقصد صرف معروضی سوالات نہیں ہوتے بلکہ مختصر اور تفصیلی سوالات بھی ہوسکتے ہیں۔
آتے ہیں ایس ایل اوز کی وضاحت کی جانب۔ ایس ایل اوز سٹوڈنٹ لرننگ آوٹ کمز کا مخفف ہے جس کا بنیاد بلوم نامی ماہر تعلیم کے تعلیمی نظریہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ بلوم نظریہ دراصل تین درجہ کے ماڈل کا ایک مجموعہ ہے جو ان کی پیچیدگی اور خصوصیت کی بنیاد پر سیکھنے کے مختلف مقاصد کی درجہ بندی کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بلوم کا خیال ہے کہ سیکھنے کا عمل تین سطحوں پر مشتمل ہوتی ہے یعنی اس کی تین ڈومین ہوتی ہے: علمی یا کاگنیٹیو ، جذباتی یا ایفیکٹیو اور نفسیاتی یا سائکو موٹر۔بلوم کے درجہ بندی کا نام بینجمن بلوم کے نام پر رکھا گیا ہے ، یہ ایک درسگاہ ہے جس نے اس درجہ بندی کے نظام کو تشکیل دینے والے اساتذہ کی کمیٹی کی سربراہی کی تھی۔ اس کے علاوہ ، وہ نظام دستی کی پہلی جلد کے ایڈیٹر تھے ، جسے “تعلیمی مقاصد کی درجہ بندی و تعلیمی اہداف کی درجہ بندی” کہا جاتا ہے۔بعد میں ، 20 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ، تعلیمی مقاصد کی مختلف اقسام پر متعدد دستی کتابیں شائع کی گئیں۔ سن 1956 میں ، علمی اہداف سے متعلق ایک شائع ہوا ، اور 1964 میں ، جو متعلقہ اہداف سے متعلق تھا۔بلوم کے درجہ بندی کی ابتدا کے بعد سے یہ سطحیں یا ڈومینز قدرے تبدیل ہوگئے ہیں ، خاص طور پر 2001 میں اس درجہ بندی کے نظام میں ترمیم کے بعد۔ فی الحال ، علمی جہت یعنی کاگنیٹیو ڈومین کی درجے یہ چھ ہیں: یاد رکھنا یعنی نالج، سمجھنا یعنی انڈرسٹینڈنگ ، اطلاق کرنا یعنی اپلیکیشن، تجزیہ کرنا ، تشخیص کرنا تخلیق کرنا۔
اب آتے ہیں ایس ایل او بیسڈ امتحانات کی جانب۔اس طریقہ کارمیں کتاب میں دیےگئے ٹاپکس اہم ہوتے ہیں اور ان ٹاپکس کو طالب علم نے مختلف طریقوں اور مجوزہ کتب سے تیار کرنا ہوتا ہے۔فی الوقت کے پی ٹیکسٹ بکس میں موجود اسباق کو تین بنیادی حصوں میں تقسیم کر کے پیپر تیار کیے جا رہے ہیں۔ جو کہ بلوم ٹیکسانومی کے پہلے یعنی کاگنیٹیو ڈومین کے صرف ابتدائی تین مراحل ہیں۔ یعنی سیکھنا، سمجھنا اور اطلاق کرنا۔
پہلا مرحلہ سیکھنا یا نالج۔ اس حصہ میں کتاب میں دی گئی تعریفیں اور انفارمیشن بیسڈ سوالات شامل ہیں۔ یہ حصہ مشقی سوالات وغیرہ پر مشتمل ہے جس میں بچے کی ذہانت کو ٹیسٹ کیا جاۓ گا۔یہ حصہ کل پیپر کے چالیس فیصد سوالات پر مشتمل ہے۔ مثلا فزکس کی تعریف کریں یا اسلام کے بنیادی عقائد لکھیں وغیرہ۔ دوسرا مرحلہ سمجھنا یا انڈرسٹینڈنگ۔ اس سطح یعنی افہام و تفہیم ، میں نہ صرف معلومات کو یاد رکھنا بلکہ اس کے معنی کو سمجھنا بھی شامل ہے۔ یہ حفظ شدہ نظریات کو ترتیب دینے ، موازنہ کرنے اور ان کی ترجمانی کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس میں بحث ، خاکہ ، وضاحت ، پیش گوئی وغیرہ شامل ہوتی ہے۔ اس حصہ کو صحیح معنوں میں کنسپٹ بلڈنگ کہتے ہیں دراصل اطلاق کرنے والے سوالات ان سے ہی نکلتے ہیں۔ اس حصہ میں اعلی تصوراتی سوالات مراد لیے جاسکتے ہیں۔ یہ حصہ بچے کو تنگ کر سکتا ہے یہ سوالات کل پرچہ کا تیس فیصد ہوں گے۔ تیسرا مرحلہ اطلاق کرنے یا درخواست دینے کا ہے۔ اس سطح میں مسائل کو حل کرنے کے لئے حفظ اور سمجھے ہوئے علم کے استعمال پر مشتمل ہے۔ اس طرح ، سیکھنے والوں کو جو کچھ انہوں نے پہلے سے سامنا نہیں کیا تھا ، ان نئے حالات کے بارے میں جو کچھ سیکھا ہے اسے نکالنے کے قابل ہونا چاہئے۔اکثر سیکھے گئے خیالات کا اطلاق یادداشت اور فہم کو تقویت دیتا ہے۔یہ سطح استعمال کریں ، واضح کریں ، مکمل کریں ، حل کریں وغیرہ جیسے سوالات پر مشتمل ہوتا ہے۔اس حصہ میں اسباق کا وہ حصہ شامل ہے جس کا روزمرہ زندگی میں استعمال کیا جاتا ہے۔یہ حصہ کل پیپر کے تیس فیصد سوالات پر مشتمل ہے۔اس طریقہ امتحان سے بچے کی تخلیقی مہارتیں بہتر ہو گی اور روایتی رٹا سسٹم سے چھٹکارا مل جاۓ گا بالخصوص بچے کو رٹا مشین بنانے کی بجاۓ سکھانے پر فوکس ہو گا.اداروں کےلیے لازمی ہے کہ وہ اپنے سلیبس کو نئے پیٹرن کے مطابق تشکیل دے کر بچوں کا جائزہ لیں تاکہ پہلےسے رائج طریقہ تدریس اور طریقہ امتحان سے نکل کر جدید طریقہ امتحان پر شفٹ ہوا جا سکے۔مختصر یہ کہ، سوالات کی نوعیت کیا سے کیوں کی طرف لانا ہے۔ اس پوری طریقہ کار کے سمجھانے کے لیے تعلیمی بورڈ کی جانب سے ورکشاپس اور سیمینار کا انعقاد کیا جارہا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ دوسری جانب بورڈز نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سال ابتدائی مرحلے میں پچاس فیصد ایس ایل او کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے اور وہ بھی اسان اور عمومی سوالات ہوں گے تاہم اگلے سال سے مکمل ایس ایل اوز کے بنیاد پر پرچے بنیں گے۔ علاوہ ازیں تمام بورڈز نے ویب سائٹ پر ماڈل پیپر بھی اپلوڈ کیے ہیں جن سے استفادہ یا رہنمائی لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

Share and Enjoy !

Shares

اپنا تبصرہ بھیجیں