0

کیلاش قبیلے کا سالانہ مذہبی تہوار چیلم جوش احتتام پذیر

چترال(گل حماد فاروقی) کیلاش قبیلے کا سالانہ مذہبی تہوار چیلم جوش جسے مقامی زبان میں جوشی بھی کہلاتا ہے وہ اپنے تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ وادی بمبوریت میں احتتام پذیر ہوا تاہم یہ تہوار کیلاش وادی بریر میں جاری ہے۔موسم بہار کے اس تہوار میں کیلاش مرد ڈھولک بجاتے ہیں جبکہ کیلاش خواتین گول دائریے میں کندھے سے کندھا ملاکر مذہبی گیت گاتی ہوئی رقص کرتی ہیں۔کیلاش قبیلے کے مذہبی رہنماء جنہیں قاضی کہلاتے ہیں وہ اس محفل کے درمیان میں کھڑے ہوکر دعائیں اور مذہبی گیت گاتی ہیں جبکہ ان کے اہل و عیال ان کے ٹوپی کو سو، پانچ سو، ہزار روپے کے نوٹوں سے سجاتے ہیں۔ یہ ان کی ان کیلئے عزت اور اکرام کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ دوپہر تک کیلاش خواتین اور بچے محتلف دیہات سے گیت گاتی ہوئی ڈھولک کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے ٹولیوں کی شکل میں چرسو یعنی رقص گاہ جمع ہوتے ہیں۔دوپہر کے بعد کیلاش لوگ ہاتھوں میں اخروٹ کی ٹہنی اور پتے ہاتھوں میں پکڑ کر ان کو لہرا لہرا کر مرکزی رقص گاہ یعنی چرسو کی طرف دھیرے دھیرے گامزن ہوتے ہیں اس دوران کسی مسلمان یا دیگر مذہب کے لوگوں کو اس جلوس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ جب چرسو پہنچ جاتے ہیں تو وہاں خوب جی بھر کر رقص کرتے ہیں
عصر کے بعدکیلاش کے مذہبی رہنماء یعنی قاضی حضرات گندم کے فصل میں دودھ چڑھکاتے ہیں جو برکت کیلئے ایسا کیا جاتا ہے جبکہ مرد لوگ چرسو سے دور جاکر اپنے ہاتھوں میں اخروٹ کے ٹہنی، پتے یا پھول پکڑ کو اپنے زبان میں اونچے آواز میں دعا یا مذہبی گیت گاتے ہوئے آہستہ آہستہ رقص گاہ کی طرف آتے ہیں۔ مگر ان کے سامنے کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چرسو میں خواتین بھی ہاتھوں میں ٹہنیاں اور پتے پکڑ کر انہیں لہرا لہرا کر گیت گاتی ہیں اور مردوں کا انتظار کرتی ہیں۔
جب مرد حضرات اپنے قاضیوں کے قیادت میں رقص گاہ یعنی چرسو پہنچ جاتے ہیں تو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پتے اور ٹہنیاں ان خواتین پر نچاور کرتے ہوئے سب گل مل جاتے ہیں اور اکٹھے رقص پیش کرتے ہیں۔ اس تہوار کو دیکھنے کیلئے کثیر تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح آئے ہوئے تھے۔ تاہم راستوں کی حرابی اور سیاحوں کیلئے بیٹھنے کی جگہہ اور دیگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کو چند مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چترال ٹریول بیورو کے دعوت پر فن لینڈ سے درجن بھر سیاح پہلی بار وادی کیلاش آئے تھے۔ ان سیاحوں سے جب اس تہوار کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جو سرکاری اور غیر سرکاری ادارے سیاحت کو ترقی دینے کیلئے کام کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ سیاحت پہ مزید توجہ دے اور اسے فروغ دینے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھاتے ہوئے ان پر مزید کام کرے تاکہ سیاحوں کو آنے جانے میں مشکلات کا بھی سامنا نہ ہو اور یہاں زیادہ سے زیادہ سیاح آنے سے اس علاقے کے لوگوں کی معاشی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔
چترال ٹریول بیورو مسؤل، مستحکم، احیائی اور تبدیلی پذیر ٹورزم کے فروغ کے لئے ویژن کو پیش کرنے پر مصروف ہے، خاص طور پر فطرت پر مبنی ٹورزم کے اس حوالے سے۔ کلاش ویلی میں ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے، چیف ایگزیکٹو آفیسر سید حریر شاہ نے مقامات، آپریشنز اور واقعات کی انتظامیہ میں مقامی عوام کی شمولیت کا اہم کردار پر زور دیا تاکہ ٹورزم کے منفی اثرات کو کم کیا جائے اور اس کے فوائد کو بڑھایا جائے۔ علاوہ ازیں، انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ غیر محرمانہ یا زیادہ تعداد میں ٹورزم کے اثرات مستحکم پہاڑی ٹورزم کے اہداف کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں، جیسے کہ ہندوکش، کاراکورم اور ہمالیہ جیسے خصوصیات کے میدان میں۔ ان علاقوں کو آب و ہوا کی تبدیلی، گلیشر کے پگھلنے اور ماحولیاتی خرابی کی حساسیت سے کام کرنا پڑتا ہے، جس سے ٹورزم صنعت کی بقائیت اور مجموعی استحکام کو نقصان پہنچ
سکتا ہے۔
بعض سیاحوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ چترال میں محتلف تہوار، میلے یا ٹورنمنٹ منانے کے نا م پر قومی خزانے سے جو حطیر رقم نکلتی ہیں انہیں اگر افسر شاہی کو وی آئی پی پروٹوکول دینے یا چند افسرا ن اور ان کے اہل حانہ خوش کرنے کی بجائے اگر ان سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور مزید انتظامات بہتر کرنے پر خرچ کی جائے تو اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔ اس سے اگر ایک طرف سیاحوں کو آنے جانے میں مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا تو دوسری طرف سیاحت کو ترقی دینے سے یہ علاقہ بھی ترقی کرسکے گا اور یہاں سے غربت کا حاتمہ ممکن ہوسکے گا۔

Share and Enjoy !

Shares

اپنا تبصرہ بھیجیں